FAGHADKHADA9 Telegram 78329
.
🔷 عنوان: حکم بخشش نابرابر اموال به فرزندان در زمان حیات والدین

🔶 چه می‌فرمایند علماء محترم در این مسئله:
اگر پدری در زمان حیات خود به برخی از فرزندان اموالی با ارزش بالاتر (مانند خانه یا خودرو) و به برخی دیگر اموالی با ارزش پایین‌تر ببخشد، در حالی که همه فرزندان مطیع و فرمانبردار او هستند، آیا چنین بخششی شرعاً صحیح است یا باید میان همه فرزندان مساوات رعایت شود؟

                  الجواب باسم ملهم الصواب

🔶 از نظر شرع مقدس اسلام، مالک تا زمان حیات خویش اختیار کامل در تصرف اموال و دارایی‌های خود دارد و فرزندان یا دیگران حقی در اموال او ندارند. لیکن اگر مالک بخواهد در حیات خود اموالی را به فرزندانش هبه و تقسیم کند، حکم آن با قواعد هبه سنجیده می‌شود.

اصل شرعی آن است که در اعطای مال میان تمام فرزندان، اعم از پسر و دختر، مساوات رعایت گردد و تبعیض بدون علت شرعی جایز نیست. چنانچه والد بدون دلیل برخی فرزندان را کمتر یا محروم کند، مرتکب گناه خواهد شد. اما در صورتی که ترجیح و اعطای بیشتر به یکی از فرزندان به دلیل تقوا، خدمت‌گزاری، نیاز مالی یا عذر موجه دیگری باشد، این امر جایز و دارای گنجایش شرعی است.

🔶 فقها تصریح کرده‌اند:
«در دوستی و محبت قلبی میان فرزندان تفاوت اشکال ندارد. در بخشش نیز اگر قصد اضرار و محرومیت نباشد، تفاوت امکان‌پذیر است؛ اما در صورت قصد زیان یا بی‌دلیل، رعایت مساوات لازم بوده و دختر و پسر باید یکسان داده شوند.»

نتیجه:
بخشیدن اموال به فرزندان در زمان حیات والدین صحیح است، اما رعایت مساوات اصل است و تبعیض تنها با دلایل شرعی مانند نیاز یا تقوا مجاز خواهد بود.


📚 دلایل: في فتاوى بنوری ٹاؤن:
زندگی میں کسی اولاد کو کم او کسی کو زیادہ دینا
سوال
والد ا پنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے یا ایک بیٹی کو گاڑی یا گھر زیادہ مالیت کا دیتا ہے اور باقی بچوں کو کم مالیت کا، تو اس طریقے سے دینا صحیح ہوتا ہے یا برابر کا دینا چاہیے؟ اس میں پسند اور ناپسند کے بچوں کا معاملہ بھی ہوتا ہے؟ اس میں کوئی بچہ نافرمان نہیں ہے،  ہر بچہ ان کی بات کو مانتا ہے۔
جواب
واضح رہے کہ زندگی میں صاحبِ جائیداد اپنی جائیداد اور تمام مملوکہ اشیاء  پر ہر طرح کے جائز تصرف کرنے  کا اختیار رکھتا ہے، چاہے خود استعمال کرے ، چاہے کسی کو ہبہ کرے۔ نیز صاحبِ جائیداد جب تک زندہ ہے، اس کی اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، تاہم صاحبِ جائیداد  اگر زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے کچھ  دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ ہے، اور اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے ، کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا مالی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔
 رد المحتار میں ہے:
"لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."     ( ٥/٦٩٦، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
والله أعلم بالصواب


🔺 دارالإفتاء دارالعلوم اسلامی ریزه

جهت ارتباط با دارالإفتاء با یکی از شماره‌های زیر تماس حاصل نمایید یا سؤالات خود را از طریق پیامک ارسال فرمایید:
09159271650
09159271644
09033925611
الله را فراموش نکنید
@Faghadkhada9
               🌹نشر خیر، صدقه‌ی جاریه🌹
👍2



tgoop.com/faghadkhada9/78329
Create:
Last Update:

.
🔷 عنوان: حکم بخشش نابرابر اموال به فرزندان در زمان حیات والدین

🔶 چه می‌فرمایند علماء محترم در این مسئله:
اگر پدری در زمان حیات خود به برخی از فرزندان اموالی با ارزش بالاتر (مانند خانه یا خودرو) و به برخی دیگر اموالی با ارزش پایین‌تر ببخشد، در حالی که همه فرزندان مطیع و فرمانبردار او هستند، آیا چنین بخششی شرعاً صحیح است یا باید میان همه فرزندان مساوات رعایت شود؟

                  الجواب باسم ملهم الصواب

🔶 از نظر شرع مقدس اسلام، مالک تا زمان حیات خویش اختیار کامل در تصرف اموال و دارایی‌های خود دارد و فرزندان یا دیگران حقی در اموال او ندارند. لیکن اگر مالک بخواهد در حیات خود اموالی را به فرزندانش هبه و تقسیم کند، حکم آن با قواعد هبه سنجیده می‌شود.

اصل شرعی آن است که در اعطای مال میان تمام فرزندان، اعم از پسر و دختر، مساوات رعایت گردد و تبعیض بدون علت شرعی جایز نیست. چنانچه والد بدون دلیل برخی فرزندان را کمتر یا محروم کند، مرتکب گناه خواهد شد. اما در صورتی که ترجیح و اعطای بیشتر به یکی از فرزندان به دلیل تقوا، خدمت‌گزاری، نیاز مالی یا عذر موجه دیگری باشد، این امر جایز و دارای گنجایش شرعی است.

🔶 فقها تصریح کرده‌اند:
«در دوستی و محبت قلبی میان فرزندان تفاوت اشکال ندارد. در بخشش نیز اگر قصد اضرار و محرومیت نباشد، تفاوت امکان‌پذیر است؛ اما در صورت قصد زیان یا بی‌دلیل، رعایت مساوات لازم بوده و دختر و پسر باید یکسان داده شوند.»

نتیجه:
بخشیدن اموال به فرزندان در زمان حیات والدین صحیح است، اما رعایت مساوات اصل است و تبعیض تنها با دلایل شرعی مانند نیاز یا تقوا مجاز خواهد بود.


📚 دلایل: في فتاوى بنوری ٹاؤن:
زندگی میں کسی اولاد کو کم او کسی کو زیادہ دینا
سوال
والد ا پنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے یا ایک بیٹی کو گاڑی یا گھر زیادہ مالیت کا دیتا ہے اور باقی بچوں کو کم مالیت کا، تو اس طریقے سے دینا صحیح ہوتا ہے یا برابر کا دینا چاہیے؟ اس میں پسند اور ناپسند کے بچوں کا معاملہ بھی ہوتا ہے؟ اس میں کوئی بچہ نافرمان نہیں ہے،  ہر بچہ ان کی بات کو مانتا ہے۔
جواب
واضح رہے کہ زندگی میں صاحبِ جائیداد اپنی جائیداد اور تمام مملوکہ اشیاء  پر ہر طرح کے جائز تصرف کرنے  کا اختیار رکھتا ہے، چاہے خود استعمال کرے ، چاہے کسی کو ہبہ کرے۔ نیز صاحبِ جائیداد جب تک زندہ ہے، اس کی اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے، تاہم صاحبِ جائیداد  اگر زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے کچھ  دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ ہے، اور اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے ، کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا مالی اعتبار سے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔
 رد المحتار میں ہے:
"لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."     ( ٥/٦٩٦، سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100150
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
والله أعلم بالصواب


🔺 دارالإفتاء دارالعلوم اسلامی ریزه

جهت ارتباط با دارالإفتاء با یکی از شماره‌های زیر تماس حاصل نمایید یا سؤالات خود را از طریق پیامک ارسال فرمایید:
09159271650
09159271644
09033925611
الله را فراموش نکنید
@Faghadkhada9
               🌹نشر خیر، صدقه‌ی جاریه🌹

BY الله رافراموش نکنید


Share with your friend now:
tgoop.com/faghadkhada9/78329

View MORE
Open in Telegram


Telegram News

Date: |

"Doxxing content is forbidden on Telegram and our moderators routinely remove such content from around the world," said a spokesman for the messaging app, Remi Vaughn. Those being doxxed include outgoing Chief Executive Carrie Lam Cheng Yuet-ngor, Chung and police assistant commissioner Joe Chan Tung, who heads police's cyber security and technology crime bureau. The best encrypted messaging apps Matt Hussey, editorial director of NEAR Protocol (and former editor-in-chief of Decrypt) responded to the news of the Telegram group with “#meIRL.” How to Create a Private or Public Channel on Telegram?
from us


Telegram الله رافراموش نکنید
FROM American