tgoop.com/faghadkhada9/78108
Last Update:
#سوال 1
السلام وعلیکم
آیا هزینه درمان به عهده همسر هست یا خیر؟؟
🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹🔸🔹
#جواب
الجواب حامداً و مصلیاً
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
در خصوص سوال شما باید، حضرت مفتی محمدتقی عثمانی حفظه الله نوشته اند که در تمام کتب فقهی از نظر ائمه اربعه و در تمام فتاوای اردو دقیقاً به همین صورت نوشته شده که هزینه درمان بر شوهر واجب نیست، بنابراین حکم اصلی این است، خواه معالجه معمولی باشد یا نباشد، اما اگر زن خودش استطاعت مالی داشته باشد، هزینه معالجه زن به عهده خودش است، درخواست از شوهر درست نیست.
اما اگر زن توانایی درمان خود را نداشته باشد، در حالی که شوهرش قدرت درمان را دارد، در چنین حالتی، درمان زن به عهده شوهر خواهد بود، اولاً به این دلیل که در عرف امروز، درمان هم مثل نان جزو نفقه است، به ویژه در چنین شرایطی که خود زوجه توان مالی آن را نداشته باشد، ثانیاً حسن معاشرت با زوجه به شدت مورد سفارش می باشد و این کار خوبی نیست که در صورت بیماری، همسر را در حالت ناتوانی رها کنیم و با وجود توانایی های مالی، مقدمات درمان او را فراهم نکنیم.
و اگر شوهر قادر به معالجه باشد و زن بتواند خودش این کار را انجام دهد، درخواست از شوهر صحیح نیست، زن باید خودش معالجه کند، ولی در این صورت هم خوب است که شوهر به اندازه توانایی خود درمان را انجام دهد و به دلیل فضائل خرج کردن بر همسر که بسیار دارای اجر و ثواب است و انجام آن اخلاقی است، زیرا زن، خانواده، خواهر و برادر و همه چیز را ترک می کند و تنها تحت حمایت یک شوهر نزد شوهرش می آید.
🔸و اگر زن نیز توان معالجه خود را نداشته باشد و شوهر نیز قادر به معالجه او نباشد، در این صورت هر دو به اندازه توانشان با هم انفاق کنند، خداوند کمکشان خواهد نمود.
#دلایل 📚👇
جواب
جیساکہ حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی لکھاہے کہ تمام کتب فقہ میں ائمہ اربعہ کے نزدیک اورتمام اردوفتاوی میں مسئلہ بعینہ اسی طرح لکھاہواہےکہ علاج کاخرچہ شوہر پرلازم نہیں ہے،اس لئے اصل حکم یہی ہے کہ علاج اگرمعمولی ہے یامعمولی تونہیں ،لیکن عورت خود علاج کروانے کی استطاعت رکھتی ہے توعورت کے علاج کاخرچہ خوداسی پر لازم ہے ،شوہرسے اس کامطالبہ درست نہیں(خیرالفتاوی میں یہاں تک لکھاہے کہ اگرعورت بیمارہواورعلاج کاخرچہ نہ ہوتواس کوچاہئے کہ اپناجہیز کاسامان بیچ کرعلاج کروائے ،شوہر پراس کے علاج کاخرچہ لازم نہیں۔( خیرالفتاوی ج4/567)
لیکن اگربیوی خودعلاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتی ،جبکہ اس کا شوہرعلاج کروانے کی قدرت رکھتاہے توایسی صورت میں بیوی کاعلاج شوہرکے ذمہ لازم ہوگا،ایک تواس لئے کہ آج کل کے عرف میں علاج بھی نان نفقہ کاحصہ ہے،اورنان نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے،خصوصاایسی حالت میں جب بیوی خوداس کی استطاعت نہ رکھتی ہو،دوسرایہ کہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کاانتہائی تاکید کے ساتھ حکم واردہے،اوریہ حسن معاشرت نہیں کہ بیوی کوبیماری کی حالت میں کسمپرسی کی کیفیت میں چھوڑدیاجائےاوراستطاعت کے باوجود اس کے علاج کاانتظام نہ کیاجائے۔
اور اگرشوہربھی علاج کرواسکتاہےاوربیوی خودبھی کرواسکتی ہے،تو شوہر سے اس کامطالبہ کرنادرست نہیں، بیوی پرلازم ہوگاکہ وہ اپنا علاج خودکروائے ،البتہ اس صورت میں بھی اگرشوہر تبرعااپنی استطاعت کے مطابق خودعلاج کروائے تواچھی بات ہے ،اور بیوی پرخرچ کرنے کے فضائل کی وجہ سے اس کاثواب بھی بہت ہوگا،اور اخلاقااس کوکروانابھی چاہئے ،کیونکہ بیوی اپنا گھربار ،بہن بھائی سب کچھ چھوڑکرایک شوہر ہی کے آسرے پرشوہر کے پاس آتی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان یہ رشتہ صرف ضابطوں پرعمل کرنے سے نہیں چل سکتا،بلکہ رابطے اورمحبت کے تقاضوں پرعمل کرنے سے چلے گا،اگرشوہر علاج کروانے سے انکار کردےتوبیوی پربھی چونکہ شوہر کی خدمت اخلاقاواجب ہے،قانونا واجب نہیں،اس لئے بیوی بھی خدمت سے انکارکرسکتی ہے اس طرح تومیاں بیوی کاآپس میں گزارہ نہیں ہوسکےگا،اوربالآخرنوبت جدائی تک پہنچ جائےگی،اس لئے دونوں کوچاہئے کہ ایک دوسرے کاخیال کریں،عفودرگزرسے کام لیں،ہرایک بقدراستطاعت دوسرے پرخرچ کرنے کی کوشش کرے۔
اوراگربیوی بھی اپناعلاج نہیں کرواسکتی،اورشوہر بھی اس کے علاج پرقادرنہیں توایسی صورت میں دونوں کوچاہئےکہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مل جل کرخرچہ کریں،تواللہ تعالی بھی مددفرمائیں گے۔
مجيب
محمّد بن حضرت استاذ صاحب
مفتیان
مفتی آفتاب احمد صاحب
مفتی محمّد صاحب
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ: دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر: 57775
تاریخ اجراء: 2017-04-23
شئیر لنکالله را فراموش نکنید
@Faghadkhada9
BY الله رافراموش نکنید
Share with your friend now:
tgoop.com/faghadkhada9/78108